Monday, March 26, 2012

"This is to express my gratitude to you (on behalf of Urdu-speaking community) for showing the door to Mr Hamiduullah Bhat, the tainted director of NCPUL. Though, this should have been done years ago, but he was being protected by certain people who did not care that their action may bring bad name to you as well. I fear that they are still helping him in one way or the other to get over his loss and their vested interest. If he is given some other assignment by the establishment, it would be most unfortunate because he is a person who could easily be categorized amongst the most corrupt people, in every sense of the word, in India."Jawaid Rahmani



"Since learning a language and be well-versed in its fineries and academic world would require years’ endeavor, one cannot expect a bureaucrat to acquire such expertise in a short time. But an academician can easily be trained to learn the nitty-gritty of administration. Therefore, it is my submission that after selecting a director from academia, she/ he must be sent to some training academy (for example of civil servants’) for a two or three month crash course. Or similar alternative could be explored. I also beg to submit that similar measures should be taken to run even the University/College department; the HoD should be provided a couple of weeks’ training before taking charge of the department. Such kinds of arrangements will certainly improve the working of these offices."             Jawaid Rahmani, President Authors'Anjuman regarding the training of officials

Sunday, March 4, 2012

Next hearing on 17 Agust 2012 regarding the Contempt of the Court against Ministry of HRD,NCPUL and former tainted director of NCPUL Hamidullah Bhat


 وزارت نے حمید الله بھٹ کو فوری اثر سے ریٹائر کر دیا اور دہلی ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی عرضی پر دوسری سماعت کے بعد اگلی سماعت 17 اگست 2012کو رکھنے کا حکم دیا  
نئی دہلی ، 4  مارچ2012 :دہلی ہائی کورٹ نے حمید الله بھٹ کو قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانے کے بعد توہین عدالت کی عرضی پر دوسری سماعت میں وزارت براے فروغ انسانی وسائل ،قومی اردو کونسل اور ملزم مسٹر ایچ بھٹ کے توہین عدالت سے انکار کو تسلیم نہیں کیا .اور جناب جاوید رحمانی کے وکیل جناب ارجن ہرکولی کی اس دلیل پر کہ عدالت عالیہ کے فیصلے کے پورے دس گیارہ دن بعد تک اس کی تعمیل نہیں کی گئی اور جب توہین عدالت کی ہماری عرضی پر عدالت نے تینوں کو نوٹس اور سمن جاری کیا تب حمید الله بھٹ کو قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا ،جس پر وہ غیر آئینی طور پر قابض تھا اور عدالت نے ویجیلنس (Vigilance)کو 6 ہفتے کا وقت دیا تھا اس کے کرپشن سے متعلق جانچ مکمل کرنے اور کاروائی کرنے کو اور CBI کو دس ہفتے کا .اور نو ہفتے ہو چکے ہیں اور ابھی تک ان دونوں ایجنسیوں نے اور وزارت نے کچھ نہیں کیا .چنانچہ کی سطحوں پر یہ سب توہین عدالت کے مجرم ہیں اور ان کو سخت سزا ملنی چاہیے . دہلی ہائی کورٹ نے وزارت کے وکیل سے جواب مانگا اور جواب تسلی بخش نہ پا کر یہ حکم دیا کہ حمید الله بھٹ کو ملازمت سے باہر کر دیا گیا ہے ،اس کو آن ریکارڈ رکھا جائے اور ویجیلنس کی تفتیش جلد سے جلد مکمل کرائی جائے اور اگلی سماعت (17اگست2012 )میں عدالت میں پیش کی جائے اس کے بعد توہین عدالت کے مسئلے پر یہ عدالت اپنا فیصلہ سنائیگی.اس موقعہ پر عدالت میں ڈاکٹر حمید الله بھٹ اور ڈاکٹر جاوید رحمانی بھی موجود تھے . واضح رہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے جناب جاوید رحمانی اور پروفیسر لطف الرحمن کیPIL پر متعدد سماعتوں کے بعد حکم دیا تھا کہ حمید الله بھٹ کو قومی اردو کونسل سے ہٹایا جائے اور  CBIکو دس ہفتے میں بھٹ کے خلاف انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا تھا اور وزارت براے فروغ انسانی وسائل کو 6 ہفتے میں ڈیپارٹمنٹل انکوائری مکمل کرنے کا .مگر ان میں سے کسی فیصلے پر اب تک عمل نہیں کیا گیا تھا  چنانچہ جناب جاوید رحمانی نے ہائی کورٹ میں ان تینوں کے خلاف توہین عدالت کی عرضی داخل کی تھی جس پر سماعت میں حکومت کے وکیل جناب ڈی اس مہیندرو اور جناب جاوید رحمانی کے وکیل جناب ارجن حرکاولی کی بحث سننے کے بعد جسٹس ویپن سنگھوی نے وزارت براے فروغ انسانی وسائل ،قومی اردو کونسل اور بھٹ کو نوٹس اور سمن جاری کیا تھا جس میں وزارت سے کہا گیا تھا کہ عدالت عالیہ کے فیصلے پر ترنت عمل کرے اور ایک ہفتے میں کورٹ میں ایفی دوٹ (Affidavit)داخل کر کے بتائے کہ بھٹ کو قومی اردو کونسل سے نکال دیا ہے اور اس کے خلاف ڈیپارٹمنٹل انکوائری بھی کورٹ کے حکم کے مطابق مکمل کر لی ہے .اور قومی اردو کونسل کو بھی حکم دیا کہ وہ عدالت عالیہ کے فیصلے پر فوری عمل آوری کو یقینی بناے اور بھٹ سے ڈائریکٹر قومی اردو کونسل کا چارج فوری طور پر لے لے اور عدالت میں ایفی دوٹ  (Affidavit) داخل کرکے بتائے اور بھٹ کو ڈائریکشن دیا کہ قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر کے عہدے  سے الگ ہو جائے اور عدالت میں حاضر ہو کر بتائے کہ عدالت کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے .جناب جاوید رحمانی نے ایک خط دہلی ہائی کورٹ کے اس ڈائریکشن کی کاپی کے ساتھ وزیر براے فروغ انسانی وسائل جناب کپل سبل  ، وزیر  مملکت براے فروغ انسانی وسائل جناب ای احمد ،اور سکریٹری ہائر ایجوکیشن محترمہ وبھا پوری داس کو بھیج کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ فوری طور پر بھٹ کو نہ صرف  قومی اردو کونسل سے بلکہ نوکری سے بھی باہر کیا جائے .اس پر وزارت براے فروغ انسانی وسائل نے حمید الله بھٹ کو فوری طور پر ریٹائر کر دینے کا حکم دیا اور حمید الله بھٹ نے 23فروری 2012کو   ڈائریکٹر قومی اردو کونسل کا چارج قومی اردو کونسل کے پرنسپل پبلی کیشن آفیسر نسیم احمد کو سونپ دیا تھا .پروفیسر لطف الرحمن (پٹنہ )اور جناب جاوید رحمانی (دہلی ) نے قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر حمید الله بھٹ کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں یہ PILفروری 2011میں داخل کی تھی اس وقت جناب جاوید رحمانی قومی اردو کونسل  میں ProjectAssistant تھے اور انکی شناخت اردو کے ایک ایسے اہم نو جوان ناقد کی بھی ہے جس نے اپنی زندگی اور ادبی سفر پر کبھی بھی مصلحت اور مصالحت کی گرد نہیں پڑنے دی اور پروفیسر لطف الرحمن کا شمار جدیدیت کے اہم نظریہ سازوں میں ہوتا ہے .پروفیسر لطف الرحمن اس وقت قومی اردو کونسل کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے .جناب جاوید رحمانی اور پروفیسر لطف الرحمن نے اپنی  PILمیں بھٹ کی ملازمت کے روز اول سے اس کی مجرمانہ حرکتوں کا حوالہ دیا جن میں کشمیر یونیورسٹی اور ہمدرد یونیورسٹی سے اسکے بد عنوانی کے الزام میں نکالے جانے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس کے تقرر کی خبر پر ان وجوہ سے برپا ہونے والے ہنگامے اور اس کے نتیجے میں اس کے تقرر کا رد کیا جانا شامل ہے .ان سب کے دستاویزی ثبوت پیش کر کے انہوں نے ہائی کورٹ کو یہ بتایا کہ اس کی اطلاع بھٹ نے اس سیلکشن کمیٹی کو نہیں دی جو اس کے چند با اثر آقاؤں کے اشارے پر اس کو ڈائریکٹر قومی اردو کونسل منتخب کرنے کیلئے ڈائریکٹر کی جگہ مشتہر کئے بغیر بنائی گئی تھی اور اس کمیٹی نے نوید مسعود اور محمود ہاشمی جیسے ذمہ دار سرکاری افسر اور ادیب پر اس بے ایمان اور جاہل کو ترجیح دے کر منتخب کیا .انہوں نے ہائی کورٹ کو یہ بھی بتایا دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کہ اس نے قومی اردو کونسل کا ڈائریکٹر منتخب ہونے کے بعد پھر اپنی فطرت کے عین مطابق ہر قسم کی مالی اور اخلاقی بد عنوانی کی جس کے نتیجے میں 2005میں CBIنے اسکو بہت بڑی نقد رقم کے ساتھ گرفتار کیا اور یہ ڈائریکٹر کے عہدے سے معطل کر دیا گیا ،اسکے بعد بھی یہ اپنے سیاسی آقاؤں (جن میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اپنی پبلک لائف میں اخلاقیات کا ورد کرتے نہیں تھکتے )کی مدد سے دوبارہ اسی ادارے میں لوٹ آیا اور انہوں  نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ یہاں یوں تو اس نے ہر سطح پر اور ہر طرح کی بد عنوانی کی جن میں سے کچھ کی مثال دیتے ہوئے عدالت میں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ڈائریکٹر کی پوسٹ قومی اردو کونسل میں صرف تین سال کی تھی اور ہے اور قومی اردو کونسل کے MoU کے مطابق یہ مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی مگر اس نے غلط طریقوں سے اپنے سیاسی آقاؤں کی مدد سے اپنی پوزیشن کو مستقل کر والیا .یہ بھی بد عنوانی کی ہی ایک انتہائی سفاک قسم تھی جو اردو کے نام نہاد ادیبوں کو اسلئے نہیں دکھی کہ ان میں سے بیشتر کی قیمت ایک ہزار روپے ہے جو یہ انھیں قومی اردو کونسل کے خزانے سے اس طرح دینے کا ہنر جانتا تھا  کہ وہ اس رقم کو قومی اردو کونسل کی طرف سے اور اپنی لیاقت کے صلے میں نہیں بلکہ بھٹ کی طرف سے اور اپنی قیمت کے بطور سمجھیں .اور اردو کے بیشتر اخبارات اور ان کے مدیران کا حال ان سے بھی برا ہے .اس کے باوجود کئی اردو کے ادیب اس کی بے ایمانیوں اور مکاریوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے جن میں پروفیسر شمیم حنفی ،جناب گوہر رضا ،محترمہ شبنم ہاشمی،سید شہاب الدین ،جناب عزیز پاشا (ایم پی ) ،جناب ظفر الا سلام خان اور ڈاکٹر ارجمند آرا شامل ہیں .پروفیسر شمیم حنفی ،جناب گوہر رضا اور محترمہ شبنم ہاشمی نے تو اس کی دوبارہ بحالی کی مخالفت کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کی تمام کمیٹیوں سے استعفی بھی دے دیا مگر وزارت براے فروغ انسانی وسائل کے چند غیر ذمہ دار افسروں نے جو وزیر براے فروغ انسانی وسائل کے بہت قریب تھے اسکے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے دی اور اس کے عوض بھٹ قومی اردو کونسل کے پیسے ان پر پانی کی طرح بہاتا رہا .انہوں نے ہائی کورٹ کو گویل کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں اس کی ہر قسم کی بد عنوانیوں کی لمبی فہرست شامل ہے اور  عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس نے ٹرم پوسٹ پر اس ادارے کا ہر سطح پر غلط استعمال کرکے اپنے آپ کو مستقل تو کروالیا مگر جیسے ہر مجرم سے کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے اس سے بھی ہو گئی .وہ یہ کہ اسکا تقرر اسپیشل ٹرم اینڈ کنڈیشن کے تحت ہوا تھا جس کو یہ فنڈا مینٹل سروس رول (FSR) سے تبدیل نہیں کروا سکا .اور گرفتاری کے بعد اسے قومی اردو کونسل واپس آنے میں بہت وقت لگا اور جب تک حالات بھی بہت بدل چکے تھے اسلئے دوسرے دور میں ایسا کروا پانا اسکے لئے ممکن نہیں رہا اور اس نے سوچا کہ قومی اردو کونسل کے دوسرے ملازموں کے  FSRمیں تبدیلی کو جس مبہم انداز میں قومی اردو کونسل کی ایگزیکیوٹو کمیٹی نے اسکی کنوینر شپ میں Adopt کیا تھا یہ اسکا فائدہ اٹھالیگا .چنانچہ ہائی کورٹ نے جب جواب طلب کیا تو اس نے اسی کا حوالہ بھی دیا جو گروپ بی اور سی اور ڈی کے ملازموں کیلئے تھا گروپ اے کیلئے نہیں جسکے تحت ڈائریکٹر کی پوسٹ آتی ہے .ان سب کے بعد جناب جاوید رحمانی اور پروفیسر لطف الرحمن  نے اسکو بر طرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور عدالت نے ان کے  مطالبے کو جائز تسلیم کرتے ہوئے مان لیا اور اس کو 58 سال کی عمر میں اس عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا اور  CBIکو حکم دیا کہ اس سے متعلق کیس کی تفتیش دوبارہ کرے اور دس ہفتے کے اندر مکمل کر لے اور وزارت براے فروغ انسانی وسائل میں بھی اسکے خلاف بہت دنوں سے ویجلنس کی ایک انکوائری پینڈنگ میں تھی جسکا حوالہ PIL میں دیا گیا تھا ہائی کورٹ نے اس انکوائری کو 6 ہفتے میں مکمل کروانے کا وزارت براے فروغ انسانی وسائل کو حکم دیا .یہ فیصلہ  9دسمبر 2011کو آ گیا تھا جس کے خلاف بھٹ  نے پہلے تو انتہائی جاہلانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان روزنامہ انقلاب دہلی میں چھپوایا اور پھر ہائی کورٹ میں ریویو اپلیکیشن(ReviewApplication)  داخل کر دی  تھی اور  اس نے قومی اردو کونسل سے بھی ریویو اپلیکیشن داخل کروا دیتھی  جبکہ اس فیصلے میں قومی اردو کونسل کے خلاف کوئی بات یا سزا نہیں تھی چنانچہ قومی اردو کونسل کو حق ہی نہیں تھا کہ ریویو فائل کر کے ٹیکس پیئر کے پیسے کو ضائع کرے.ان دونوں ریویو اپلیکشنز پر 20 جنوری 2012 کو بحث ہوئی مگر اس دن ہائی کورٹ نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا .یہ فیصلہ 10 جنوری 2012 کو دہلی ہائی کورٹ نے سنایا جس میں آنریبل کورٹ نے اپنے پچھلے فیصلے کو برقرار رکھا .اس فیصلے کے آنے کے بعد جناب جاوید رحمانی نے وزیر براے فروغ انسانی وسائل جناب کپل سبل کو وزیر مملکت براے فروغ انسانی وسائل جناب ای احمد کو اور  سکریٹری ڈیپارٹمنٹ آف ہائر ایجوکیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا  کہ بھٹ کو جلد سے جلد قومی اردو کونسل سے باہر کریں اور جس طرح انہوں نے اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے اسے پہلے یہ موقع دے دیا تھا کہ وہ قومی اردو کونسل سے ریویو فائل کرواکے سرکاری پیسے کا غلط استعمال کرے ،ایسا دوبارہ نہ ہونے دیں وگرنہ انھیں بھی عدالت میں اس مجرمانہ فعل کا جواب دینا پڑیگا.  مگر وزارت نے اس فیصلے کے دس دن بعد تک کچھ نہیں کیا تھا اور بھٹ قومی اردو کونسل کے دفتر جاتا رہا تھا .چنانچہ جناب جاوید رحمانی نے 17 فروری 2012 کو دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرکے وزارت ،قومی اردو کونسل اور بھٹ کے خلاف توہین عدالت کے معاملے میں کاروائی کی اپیل کی تھی .جس پر 21 فروری 2012کو سماعت کے بعد جسٹس ویپن سنگھوی نے نوٹس اور سمن بھیجنے کا حکم دیا تھا اور تینوں سے اس فیصلے کی فوری تعمیل اور تعمیل کے بعد کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے بتانے کو کہا تھا کہ حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے .اس  کی تعمیل وزارت نے 22 فروری  2012کوکر دی .اور بھٹ کو فوری اثر سے ریٹائر کر دیا گیا مگر انکوائری کے سلسلے میں سستی برتی گئی جس پر عدالت نے اپنے برہمی ظاہر کرتے ہوئے توہین عدالت کی اس عرضی پر اگلی سماعت 17 اگست 2012 کو رکھی اور وزارت سے کہا کہ اس عرصے میں انکوائری ہر حال میں مکمل کر لی جائے . 
(پریس ریلیز )
Hindustan Times Daily,Delhi,Feb23,2012:Page11